مہنگائی کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی اور غذائیت کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے
گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر
اور سابق صیشنل بزنسوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی اور غذائیت کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اس لئے فلور ملز پر نئے بجٹ میں اضافی ٹیکس لگانے کے بجائے موجودہ ٹیکس بھی ختم کئے جائیں تاکہ روٹی سستی ہو سکے۔
بجٹ میں فلور ملز کے ٹرن اوور پر چار سو فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ چوکر پر سیلز ٹیکس سترہ فیصد کر دیا گیا ہے جس سے ملک بھر میں تشویش پھیلی ہوئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 17 سو فلور ملز ہیں جن پر ٹرن اوور اور سیلز ٹیکس لگانے سے آٹے کی قیمت میں کم از کم پانچ روپے فی کلو اضافہ کا تخمینہ تھا مگر ٹیکس لاگو ہونے سے پہلے ہی گندم مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی ہے اور ملک بھر میں آٹے کے تھیلے کی قیمت میں بیس سے تیس روپے تک کا اضافہ ہو گیا ہے جو انتظامی کمزوری کا ثبوت ہے۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں آٹے کا فی کس استعمال بہت زیادہ ہے اور ایک آدمی سالانہ کم از کم ایک سو چوبیس کلو آٹا کھاتا ہے جبکہ آٹے کا مجموعی استعمال دو کروڑ 85 لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ اور اسکی قیمت میں پانچ روپے فی کلو اضافہ سے عوام پر مجموعی طور پر ڈیڑھ کھرب روپے کا بوجھ بڑھے گا جو ناقابل برداشت ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجٹ اقدامات کے نتیجہ میں فوڈ سیکورٹی کے بحران کے پیش نظر احتجاج کے بعد فلور ملز پر ٹرن اوور ٹیکس بڑھانے کے سلسلہ میں ایک چھوٹی سی وضاحت آئی ہے جو ناکافی ہے اس لئے فلور ملز کی جانب سے ہڑتال کی کال سے قبل اعلی حکومتی شخصیات آگے آ کر صورتحال واضع کریں تاکہ ذخیرہ اندوزوں کے عذائم ناکام اور آٹے کی قیمت کو معمول پر لایا جا سکے۔