چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں بنچ اور بار کا اہم کردار ہے ،وکلاء اور ججز کے درمیان دیوار کو کافی حد تک مسمار کیا ہے ، وکلاء کو ججز کے ساتھ وائلنٹ نہیں ہونا چاہیے ، ججز کی اپوائنمنٹ میں وکلاء کو شامل کیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ نئی حدیں ہیں جونئے نئے راستے نکال رہی ہیں ،ہم وکلاء اور ججز میں عدالتی معاملات باہمی طریقے سے آگے لے کر بڑھ رہے ہیں،عدالتی معاملات پروکلاء کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
انہوںنے کہا کہ ججز کی تعیناتیوں میں کامیاب ہوئے ہیں ،مزید ججز بھی تعینات کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ جج کی بات کو سننا اچھے وکیل کا کنڈکٹ ہونا چاہیے ، انسان تجربے کے ساتھ سیکھتا ہے ، نئے وکلاء آتے ہیں ان میں زیادہ جوش ہوتا ہے اس لئے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جج صاحب مجھے کام نہیں کر نے دے رہے، جج صاحب آپ کو کام کرنے دے رہے ہوتے ہیں، آپ نے سمجھنا ہوتا ہے جج صاحب آپ کو کس قسم کے کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں تاکہ آپ اسی طرف جائیں، وکلاء کی استعداد ہونی چاہیے کہ وہ اپنے جج اور مقدمے کو سمجھیں اور باقی ججز پر چھوڑ دیں ، خواہش ہے کہ وکلاء برادری اس معاملے میں ثابت قدم رہے گی ۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ جب میں چیف جسٹس بننے کے بعد پہلی بار لاہور ہائیکورٹ بار کے ڈنر میں شریک ہوا تھا تو اس وقت وکلاء کی قیادت نے کہا تھا کہ ہم نے ہڑتال کا کلچر ختم کر دیاہے اور اس کے بعد پنجاب میں اور خاص طور پر لاہور میں کوئی ہڑتال نہیں ہوئی جس پر میں وکلاء برادری اور ان کی قیادت کو مبارکباد دیتا ہوں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ دوستوں سے صرف ایک گزارش کرنی ہے ہم تاریخ کے اس موڑ پرکھڑے ہیں جہاں ہماری اور آپ کی سر گرمیوںکو دیکھنے کیلئے مختلف ادارے موجود ہیں اور وہ اس پر بر ملا جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
خواہ وہ سوشل میڈیا کے فورمز ہوں، الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا ہو اس پر جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے ، اب یہ بات نا ممکن ہے کہ ہمارا کوئی فعل ہماری روایات کے منافی ہو اور اس کی پردہ پوشی کی جاتی رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جو اس خطے کے پسے ہوئے لوگ ہیں جو غریب لوگ ہیں وہ سسٹم کے اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں ۔ یہ لوگ آپ کی وساطت سے انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں کے دروازوں پر آتے ہیں،ہماری اورآپ کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ پسے ہوئے محروم طبقوں قانون کے مطابق ان کے حقوق دلائیں ،عدلیہ اور وکلاء دونوں اپنی اپنی ذمہ داری بھرپور انداز میں ادا کریں ،ہماری اور آپ کی اخلاقی طو رپر بھی ذمہ داری ہے مقدموں کے فیصلوںکو تیزی سے کریں ، یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ اگر دادا مقدمہ دائر کرتا تھا تو پوتے کے دور میں فیصلہ اور پڑپوتے کے دور میں اجراء کا فیصلہ ہوگا ،یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ، آپ اور ہم نے اپنے فرض کو ادا کرناہے ۔
ا نہوںنے کہا کہ جب میں بار کا ممبر بنا تھا تو ایک دن کا جج بھی ہوتا تھا تو اس کی عزت ہوتی تھی اوریہی معاملہ وکلاء کے ساتھ بھی تھا ، باہمی عزت کے رویے ہیں ان کو دوبارہ اسٹیبلش کرنا ہے ، بار کے لئے اجتماعی مسائل کے لئے میرے دروازے ہمہ تن کھلے ہوئے ہیں،اجتماعی مفاد کی بات ہو سکتی ہے تاکہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں آپ کی تکالیف کو دورکیا جا سکے ۔
ایک بات کہوں گاکہ ہم اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کام میں کون کون اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان نے دیگر کے ہمراہ سنٹر آف ایکسیلینس کا افتتاح کیا۔ پنجاب بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا گیا جس میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان سمیت دیگر معزز ججز صاحبان اور وکلاء رہنماؤں نے شرکت کی ۔